Horror
all age range
2000 to 5000 words
Urdu
Story Content
گہرے سبز پہاڑوں کے دامن میں، ایک چھوٹا سا گاؤں بسا ہوا تھا، جس کا نام سیہ پور تھا۔ دیکھنے میں یہ گاؤں جتنا خوبصورت تھا، اس کی تاریخ اتنی ہی دردناک اور خوفناک تھی۔ گاؤں والے صدیوں سے ایک انجانے خوف کے سائے میں جی رہے تھے۔
کہتے ہیں کہ سیہ پور میں ایک صدی پہلے ایک دردناک واقعہ پیش آیا تھا۔ گاؤں کے زمیندار ساجد نامی ایک ظالم شخص نے غریب کسانوں پر بے انتہا ظلم ڈھائے تھے۔ اس کی بے رحمی اور لالچ کی کوئی حد نہیں تھی۔ اس نے کسانوں کی زمینیں ہتھیا لیں اور انہیں بھوکا مرنے پر مجبور کر دیا۔
ایک رات، جب ساجد اپنی دولت کے نشے میں چور تھا، گاؤں والوں نے مل کر اس کے خلاف بغاوت کر دی۔ غصے سے بھرے کسانوں نے ساجد اور اس کے خاندان کو اس کی حویلی میں گھیر لیا۔ حویلی کو آگ لگا دی گئی اور ساجد اپنے خاندان سمیت زندہ جل گیا۔
لیکن ساجد کی موت کے ساتھ ہی، گاؤں پر ایک عجیب و غریب سایہ پڑ گیا۔ راتوں کو عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں۔ لوگوں کو محسوس ہوتا جیسے کوئی ان کے آس پاس گھوم رہا ہے۔ فصلیں مرجھانے لگیں اور مویشی بیمار ہونے لگے۔
گاؤں والوں نے کئی بار مولویوں اور پیروں سے مدد مانگی، لیکن کوئی بھی اس مصیبت کو دور نہ کر سکا۔ سب کا کہنا تھا کہ ساجد کی روح گاؤں پر بھٹک رہی ہے اور وہ اپنی موت کا بدلہ لے رہی ہے۔
سال گزرتے گئے اور گاؤں والے ساجد کی روح کے خوف سے اپنی زندگیاں گزارتے رہے۔ لیکن پھر ایک دن، ایک نوجوان محقق، احمد، سیہ پور آیا۔ احمد نے پیرا سائیکولوجی میں ڈاکٹریٹ کی تھی اور وہ بھوت پریت کے قصوں میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔
احمد نے سیہ پور کے لوگوں سے بات کی اور ساجد کی کہانی سنی۔ اس نے گاؤں کے حالات کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ گاؤں میں کوئی شیطانی قوت موجود ہے۔
احمد نے گاؤں کے بزرگوں سے ساجد کی حویلی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اسے پتہ چلا کہ حویلی گاؤں کے بیچوں بیچ ایک پرانی قبرستان پر بنائی گئی تھی۔
احمد نے حویلی جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے رات کے وقت حویلی میں داخل ہونے کا ارادہ کیا، تاکہ وہ شیطانی قوت کا مقابلہ کر سکے۔
رات ہوئی اور احمد حویلی کی طرف روانہ ہوا۔ حویلی ایک ڈراؤنی عمارت تھی، جو اندھیرے میں اور بھی خوفناک لگ رہی تھی۔ احمد نے حویلی کے اندر قدم رکھا تو اسے ایک سرد ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔
حویلی کے اندر ہر طرف دھول مٹی جمی ہوئی تھی۔ فرنیچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ دیواروں پر عجیب و غریب سائے نظر آ رہے تھے۔ احمد نے اپنی ٹارچ روشن کی اور آگے بڑھا۔
اچانک، احمد نے ایک زوردار چیخ سنی۔ وہ چیخ ساجد کی آواز سے ملتی جلتی تھی۔ احمد نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا، لیکن اسے کوئی نظر نہیں آیا۔
احمد نے چیخ کی سمت میں چلنا شروع کیا۔ وہ ایک کمرے میں داخل ہوا، جہاں اس نے دیکھا کہ ساجد کی روح کھڑی ہے۔ ساجد کی روح غصے سے لال ہو رہی تھی۔
ساجد کی روح نے احمد پر حملہ کر دیا۔ احمد نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی، لیکن ساجد کی روح بہت طاقتور تھی۔
احمد نے اپنی جیب سے ایک مقدس کتاب نکالی اور اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ کتاب کے الفاظ سے حویلی میں روشنی پھیل گئی۔ ساجد کی روح کمزور پڑنے لگی۔
احمد نے مسلسل کتاب پڑھتا رہا، یہاں تک کہ ساجد کی روح غائب ہو گئی۔ حویلی میں سکون چھا گیا۔
احمد نے گاؤں والوں کو ساجد کی روح کے بارے میں بتایا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ حویلی کو گرا کر وہاں ایک مسجد تعمیر کریں۔
گاؤں والوں نے احمد کی بات مانی اور حویلی کو گرا کر وہاں ایک مسجد تعمیر کی۔ مسجد کی تعمیر کے بعد، گاؤں میں سکون لوٹ آیا۔ فصلیں پھر سے ہری بھری ہو گئیں اور مویشی صحت مند ہو گئے۔
سیہ پور ایک بار پھر خوشحال ہو گیا اور گاؤں والے ساجد کی روح کے خوف سے آزاد ہو گئے۔ احمد کو گاؤں والوں نے ہیرو قرار دیا اور اس کی ہمیشہ عزت کرتے رہے۔ لیکن کسی کو نہیں پتا تھا کی اس شیطانیت کی اصل وجاہا کچھ اور ہی تھی جو آہستہ آہستہ سب پر اشکار ہو گئی
کچھ دنوں بعد ساجد کے گھر کے پچھلے حصہ میں جو قبرستان تھا وہاں پر احمد تحقیق کر رہا تھا کی اسے ایک سر ملا جس پر کچھ نشانات تھے اس نے باقی قبریں کھودیں تو پتا چلا اس گاؤں کے کچھ لوگوں کو زندہ دفنا دیا جاتا تھا جب احمد نے اس سر کو لیب بھیجا تو پتہ چلا یہ ساجد کے بیٹے کا سر تھا اس نے جب باقی سروں کی ڈی این اے کروائی تو وہ ان کسانوں کی تھیں جو ساجد کے ظلم کا نشانہ بنے تھے
تو اصل کہانی کچھ یوں تھی کی ساجد گاؤں کے لوگوں کو زندہ دفنا کر انکی قربانی دیا کرتا تھا اس نے گاؤں کے لوگوں کی ایک نسل کو ختم کر دیا تھا وہ ان شیطانی قوتوں کو خوش رکھا کرتا تھا جو اب مسجد کی تعمیر سے آزاد ہو چکی تھی یہ شیطانیت دوبارہ لوٹ آئی تھی
گاؤں والے ایک بار پھر اسی ڈر میں مبتلا ہوگئے تھے۔ راتیں ڈراؤنی چیخوں سے گونج رہی تھیں، لیکن اس بار چیخیں ساجد کی نہیں تھیں بلکہ ان معصوم کسانوں کی تھیں جنہیں زندہ دفنایا گیا تھا۔